کوئٹہ کے حساس علاقے علاقے چمن روڈ پر قاتلانہ حملے میں ایڈشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) بلوچستان پولیس حامد شکیل جاں بحق ہوگئے۔
ایس ایس پی نصیب اللہ کا کہنا تھا کہ دھماکے میں اے آئی جی ٹیلی کمیونیکیشنز حامد شکیل کے قافلے کو خودکش دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، جس میں ان کے علاوہ مزید 2 پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 4 زخمی ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اے آئی جی حامد شکیل کی گاڑی کو کوئٹہ کے علاقے چمن ہاؤسنگ اسکیم میں ان کی رہائش گاہ کے قریب خودکش دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔
واقعے کے بعد ریسکیو عملے نے موقع پر پہنچ کر لاشوں اور زخمیوں کو کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کردیا، جہاں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔
دھماکے کے فوری بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر علاقے کا سرچ آپریشن شروع کردیا۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ دھماکے میں اے آئی جی کی گاڑی بری طرح متاثر ہوئی۔
واضح رہے کہ 1960 میں پیدا ہوئے حامد شکیل اس سے قبل ڈپٹی انسپکٹر جنرل آپریشنز، ایکٹنگ ڈی آئی جی انویسٹیگیشن اور اے آئی جی آپریشن کے عہدوں کے علاوہ بلوچستان پولیس کے دیگر کئی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
بلوچستان کے گورنر محمد خان اچکزئی اور وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے دھماکے کی سخت الفاظ میں مذمت کردی۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے آگے اپنے سر نہیں جھکائے گی اور واقعے کے ملزمان کو انصاف کے کھٹہرے میں لایا جائے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ کچھ سال میں سیکیورٹی اداروں نے امن عامہ کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، تاہم شرپسند عناصر تخریبی کارروائیوں کی کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری (سی-پیک) میں بلوچستان کے اہم کردار کی وجہ سے حکام دیگر ممالک کے خفیہ اداروں پر حالات خراب کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
اس حوالے سے صوبائی حکومت متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘، افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے ساحلی پورٹ شہر گوادر سے متعدد راستوں کے ذریعے چین سے تجارت بڑھانے کے لیے پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام جاری ہے جس کے تحت بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں ترقیاتی کام جاری ہیں، اس منصوبے کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ خطے اور خاص طور پر پاکستان میں معاشی تبدیلی کا باعث ہوگا۔
No comments:
Post a Comment